Add To collaction

23-Jul-2022 تحر یری مقابلہ۔ قلم کی جنگ

      قلم کی جنگ

:::::::::::::::::::::::::::::

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

                ہم نے اس کی معرفت دیکھا ہے عرش و فرش کو
                آسمانوں کو  زمینوں  سے ملاتا  ہے  قلم 

               برق بن کر ٹوٹتا ہے خرمن اغیار پر
               دوستوں کے نام کا ڈنکا بجاتا ہے قلم

           کس کس منزلوں میں رہنما اس کے نقوش
           کیسے کیسے معرکوں میں دندناتا ہے قلم

بے شک قلم ایک ایسی شے ہے جس کی قسم رب عزوجل نے قرآن مجید میں کھائی ہے ۔اب جس چیز کی قسم رب نے کھائی اس کی عظمت و شان و رفعت کے علاوہ دبدبے کا کیا کہنا ۔!!!
قلم دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ، پرجوش نڈر اور خطرناک ہتھیار ہے ۔ یہ دیکھنے میں چھوٹی سی پیاری سی ہوتی ہے مگر جب حقیقت بیانی پر اتر جائے  تو سچائی پر لگے ہوئے جھوٹ کی قلعی کو اتار کر پھینک دیتی ہے ۔
چھوٹی سی نوک ہے مگر تلوار کے دھار سے کہیں زیادہ تیز ۔
جنگ کرنے والے کا ہتھیار قدیم زمانے میں تو پتھر ،خنجر، تلوار,  بھالا, تیر وغیرہ تھا زمانے کے ساتھ ساتھ اسلحے بدلتے رہے اور سب ہتھیار کے نتائج ایک ہی ہے  قتل وغارت ، خون خرابہ لیکن قلم کسی بھی چیز سے بنی ہو لکڑی سے پلاسٹک سے یا اسٹیل سے اس سے خون نہیں بہتا بلکہ یہ ظالموں اور جابروں کے ضمیر پر وار کرتی ہے ۔ اس کا مقصد انسانیت کو زندہ رکھنا ہے جن کے ذہنوں پر بربریت کی تہہ جمی ہو یہ قلم اس کی صفائی کرتی ہے ۔
 جنگجو اپنے لئے ہتھیار ہی  کو کامیابی کا ذریعہ  سمجھتا ہے لاکھوں کروڑوں معصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون بہا کر اپنا پرچم لہراتا ہے 
  جب کہ ایک با وقار شخصیت جو  قلم کی اہمیت سے واقف ہے وہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت پر نظر جمائے سچائی سے ہر کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔وہ مصلحت اور معاہدہ سے لوگوں کے لئے ترقی کے راستے فراہم کرتا ہے ۔ اسکی سب سے اولین اور بہترین مثال سرکار دوعالم ﷺ کے خطوط اور معاہدے ہیں ۔ اور فتح مکہ بہترین کامیابی ہے جہاں کسی ایک کا بھی خون  نہیں بہا ۔۔
ہر دور میں  ظالم اور مظلوم کی کہانی رہی ہے جب ملک انگریزوں کے قبضے میں تھا تو سب نے اپنے اپنے طور پر احتجاج کیا کسی نے شرپسندی اور انتہاپسندی کا مظاہرہ کیا کسی نے محبت بھائی چارگی سے احتجاج کیا ۔
جو قلم کے چاہنے والے تھے جن کا رشتہ قلم سے تھا  ادیبوں ،شاعروں اور صحافیوں  نے قلم کو ہتھیار بنا کر لوگوں کے دلوں سے فرنگیوں کا جو خوف تھا اس کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ۔ غلامی کی زندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے ان میں امنگیں جوش ولولہ پیدا کرنے کے لئے شاعروں نے نظمیں لکھیں ادیبوں نے نثری مضامین اور صحافیوں نے انگریزوں کے خلاف لکھنا شروع کیا یہ قلم کی طاقت تھی کہ دیس کا بچہ بچہ  بیدار ہو گیا ۔
اردو کے کئ شعراء شامل تھے ان میں سے ایک مولوی محمد حسین آزاد بھی تھے انگریزوں سے زخم کھائے ہوئے۔۔۔ ان کے والد صاحب مولوی باقر علی دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔صحافت کی زمین سے قلم کے ذریعے لفظوں کا گولہ بارود انگریزوں پر برسا رہے تھے۔ اپنی فلمی طاقت سے انگریزوں کے ناک میں دم کر رکھا تھا وہ لوگ بوکھلائے ہوئے تھے اس لئے غدر کے بعد انگریزوں نے ان پر الزام لگایا کہ دہلی کالج کے پرنسپل ٹیلر کو ہلاک کرانے میں مولوی باقر علی نے باغیوں کا پورا ساتھ دیا ہے اور اس طرح ‌‌‌انگریزوں نے ان کو توپ کے منہ پر باندھ کر اڑا دیا ۔
آزادی کے لئے بہت سے جیالے چلے گئے مگر کسی نے ہمت نہیں ہاری قلم کی طاقت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور کامیابی حاصل ہوئی ۔
 موجودہ دور  بڑے سنگین حالات سے دو چار ہے  اب میڈیا کا دور ضرور ہے لیکن بولنے والے بھی لکھ کر ہی بولتے ہیں چاہے  خبریں ہوں یا تقریریں ۔ فلم تو سبھی کے پاس ہے مگر قلم کا حق ادا کرنے والے کی ضرورت ہے جو تعصب بھید بھاؤ  اونچ نیچ ،  ذات پات ، مذہب  سے پرے ہٹ کر خدمت خلق ،خدمت انسانیت اور حب الوطنی کا درس دے اور لوگوں میں  دوستی،  میل جول اور پیار ومحبت کا جذبہ پیدا کرسکے ۔۔۔۔۔۔۔!! 
فلم  ہر مظلوم بے گناہ اور کمزور کی آواز بن کر ابھرتی ہے ۔  یہ ہر دور میں جھوٹ ظلم اور ناانصافی کے جنگی ماحول میں  سچ کا پرچم لۓ میدان میں اس کے خلاف نظر آتی ہے اور تا قیامت تک یہ چلتی رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
 ۔ 

✍️۔۔۔🍁سیدہ سعدیہ فتح🍁




   21
10 Comments

Saba Rahman

26-Jul-2022 11:39 PM

Nice

Reply

Khan

26-Jul-2022 10:51 PM

Nice

Reply

Rahman

26-Jul-2022 03:48 PM

Nyc

Reply